ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دئیے ہیں
نورِ خدا نے کیا کیا جلوے دکھا دئیے ہیں
سینے کیے ہیں روشن ، دل جگمگا دئیے ہیں
لہرا کے زلفِ مشکیں نافے لٹا دئیے ہیں
ان کی مہک نے دل کے غنچے کِھلا دئیے ہیں
جس راہ چل دئیے ہیں کوچے بسا دئیے ہیں
آنکھیں کسی نے مانگیں ، جلوا کسی نے مانگا
ذرہ کسی نے چاہا ، صحرا کسی نے مانگا
بڑھ کر ہی اُس نے پایا جتنا کسی نے مانگا
مرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دئیے ہیں ، دُر بے بہا دئیے ہیں
گر یوں ہی رنگ اپنا محشر میں زرد ہوگا
دوزخ کے ڈر سے لرزاں ہر ایک فرد ہوگا
تیرے نبی کو کتنا امت کا درد ہوگا
اللہ! کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا
رو رو کے مصطفٰی نے دریا بہا دئیے ہیں
اپنے کرم سے جو دو ، اب تو تمہاری جانب
جو جی میں آئے سو دو ، اب تو تمہاری جانب
پا لو ہمیں کہ کھو دو ، اب تو تمہاری جانب
آنے دو یا ڈبو دو ، اب تو تمہاری جانب
کشتی تمہیں پہ چھوڑی ، لنگر اٹھا دئیے ہیں
لازم نہیں ہے کوئی ایسے ہی رنج میں ہو
جاں پر بنی ہو یا پھر ویسے ہی رنج میں ہو
ان کا غلام چاہے جیسے ہی رنج میں ہو
ان کے نثار ، کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آگئے ہیں ، سب غم بھلا دئیے ہیں
اہلِ نظر میں تیرا ذہنِ رسا مسلم
دنیائےِ علم و فن میں ہے تیری جا مسلم
نزدِ نصیر تیری طرزِ نوا مسلم
ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں
Thank you for taking the time to publish this information very useful!
ReplyDeleteفساتين زفاف مسلم