نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
یہ وہ سچ ہے کہ جسے ایک جہاں مان گیا
در پہ آیا جو گدا ، بن کے وہ سلطان گیا
اس کے اندازِ نوازش پہ میں قربان گیا
نعمتیں بانٹا جس سمت وہ ذی شان گیا
ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلمدان گیا
تجھ سے جو پھیر کے منہہ ، جانب قران گیا
سر خرو ہو کے نہ دنیا سے وہ انسان گیا
کتنے گستاخ بنے ، کتنوں کا ایمان گیا
لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا
مرے مولی ، مرے آقا ، ترے قربان گیا
محو نظارہ سرِ گنبد خضری ہی رہی
دور سے سجدہ گزارِ درِ والا ہی رہی
روبرو پا کے بھی محرومِ تماشا ہی رہی
آہ ! وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنا ہی رہی
ہائے وہ دل جو ترے در سے پر ارمان گیا
تیری چاہت کا عمل زیست کا منشور رہا
تیری دھلیز کا پھیرا ، میرا دستور رہا
یہ الگ بات کہ تو آنکھ سے مستور رہا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر وہ سر ہے جو ترے قدموں پہ قربان گیا
دوستی سے کوئی مطلب ، نہ مجھے بیر سے کام
ان کے صدقے میں کسی سے نہ پڑا خیر سے کام
ان کا شیدا ہوں ، مجھے کیا حرم و دیر سے کام
انہیں مانا ، انہیں جانا ، نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
احترامِ نبوی داخلِ عادت نہ سہی
شیرِ مادر میں اصیلوں کی نجابت نہ سہی
گھر میں آداب رسالت کی روایت نہ سہی
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
بام مقصد پر تمناوں کے زینے پہنچے
لبِ ساحل پہ نصیر ان کے سفینے پہنچے
جن کو خدمت میں بلایا تھا نبی نے ، پہنچے
جان و دل ، ہوش و خرد ، سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
No comments:
Post a Comment