پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کے نظمی اندازِ بیاں کو نعت یا نعت خوانی یا نعت گوئی کہا جاتا ہے۔عربی زبان میں نعت کیلئے لفظ "مدحِ رسول" استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ اکرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ نعتیں لکھنے والے کو نعت گو شاعر جبکہ نعت پڑھنے والے کو نعت خواں یا ثئاء خواں بھی کہا جاتا ہے۔

Sunday 11 October 2015

Paigam saba layi hai gulzare Nabi se

شکر خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے

بیٹھا ہوں رخت باندھ کے ، ساعت سحر کی ہے

رونق عجیب شہرِ بریلی میں گھر کے ہے
سب آکے پوچھتے ہیں عزیمت کدھر کی ہے
شکرِ خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے

شوط و طواف و سعی کے نکتے سکھا دئیے

احرام و حلق و قصر کے معنٰی بتا دئیے

رمی و وقوف و نحر کے منظر دکھا دئیے
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے
اصلِ مراد حاضری اس پاک در کی ہے

صوم و صلوۃ ہیں کہ سجود و رکوع ہیں

ہر چند شرع میں یہ اہم الوقوع ہیں

حبِ نبی نہ ہو تو یہ سب لا نفوع ہیں
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

جاں وار دوں یہ کام جو میرا صبا کرے

بعد از سلامِ شوق یہ پیش التجا کرے

کہتا ہے اک غلام کسی شب خدا کرے
ماہِ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے

سب جوہروں میں اصل ترا جوہرِ غنا

اس دھوم کا سبب ہے تری چشمِ اعتنا

ممنون تیرے دونوں ہیں ، بانی ہو یا بِنا
ہوتے کہاں خلیل و بِنا کعبہ و مِنٰی
لولاک والے ! صاحبی سب تیرے گھر کی ہے

سر پر سجا کے حمد و ثنا کی گھڑولیاں

وہ عاشقوں کی بھیڑ ، وہ لہجے ، وہ بولیاں

جالی کے سامنے وہ فقیروں کی ٹولیاں
لب وا ہیں ، آنکھیں بند ہیں ، پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے

ہے دفترِ نسب میں یہ عزت لکھی ہوئی

قرطاسِ وقت پر ہے یہ خدمت لکھی ہوئی

پُشتوں سے گھر میں ہے یہ عبارت لکھی ہوئی
میں خانہ زادِ کہنہ ہوں ، صورت لکھی ہوئی
بندوں‌کنیزوں میں مرے مادر پدر کی ہے

ہر لمحہ آشنائے تب و تاب ہوگی آب

دنیائے آبرو میں دُرِ ناب ہوگی آب

ان کا کرم رہا تو نہ بے آب ہوگی آب
دنداں کا نعت خواں ہوں ، نہ پایاب ہوگی آب
ندی گلے گلے مرے آبِ گہر کی ہے

دم گُھٹ رہا تھا محبسِ قالب میں بے ہوا

تھا ملتجی نصیر کہ یارب چلے ہوا

اتنے میں‌ دی سروش نے آواز ، لے ہوا
سنکی وہ دیکھ ! بادِ شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضا ترے دامانِ تر کی ہے

2 comments: